لاک ڈائون اور ملکہ کوہسار مری

 لاک ڈائون اور ملکہ کوہسار مری

وقاص صدیقی

دُنیا بھر کے ممالک کو کرونا وائرس جیسی ناگہانی آفت سے بچائو کے لئے لاک ڈائون کرنا پڑا۔ پاکستان نے بھی اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مختلف مرحلوں میں ملک بھر میں لاک ڈائون کیا جو کہ کرونا وائرس کے پھیلائو کو روکنے میں فائدہ مند ثابت ہوا ۔ لاک ڈائون  کی وجہ سے جہاںملک کی مختلف انڈسٹریز کو نقصان پہنچا وہاں  سیر و سیاحت کی صنعت بھی بری طرح متاثر ہوئی جس کے نتیجے میں  پاکستان کے مشہور  سیاحتی مقامات جیسے کہ  ملکہ کوہسار مری اور اس سے ملحقہ علاقوں ، گلیات، بھوربن، ایوبیہ اور نتھیا گلی ویران ہو گئے ۔بالآخر یہ ویرانیاں ختم ہو چکی ہیں اور    ایک اندازے کے مطابق  حالیہ دنوںمیں پاکستان بھر سے قریباً 15 لاکھ سیاح   اس طرف راغب ہوئے ہیں۔ 


یوں تو مری میں سارا سال ہی سیاحوں کا تانتا بندھا رہتا ہے لیکن کرونا وائرس کی پابندیوں کی وجہ سے مری کے ریسٹورنٹس اور ہوٹل مکمل طور پر بند رہے۔اب 5 ماہ کے بعد لاک ڈائون کھلنے کے فوری بعد مری کے مشہور پوائنٹ مال روڈ، پنڈی پوائنٹ، کشمیر پوائنٹ، پتریاٹا (نیو مری)، ایوبیہ اور نتھیا  گلی  سیاحوں سے بھر گئے ہیں ۔ مری کی معیشت کا دارومدار بھی سیاحت پر ہے ۔ لاک ڈائون میں نرمی کے بعد مری کے لوگوں اور کاروباری حضرات کےچہروں پر دوبارہ  خوشیاں لوٹ آئی ہیں۔تاہم خیال رہے کہ کرونا وائرس ابھی تک مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔ اس کے پھیلائو کو روکنے کے لئے جس قدر احتیاط کی جائے بہتر ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر حکومت پاکستان نے  عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کی روشنی میں سیاحوں کےلیے ایک ضابطہ کار مرتب کیا ہے جس پر عمل پیرا ہو کر سیاحت کے ساتھ ساتھ انسانی جان و مال کی حفاظت یقینی بنائی جا سکتی ہے۔

سیاحت کی اجازت صرف خاندان کے ہمراہ سفر کرنے والوں کو ہو گی اور ہر سیاح، چاہے بچہ ہو یا بڑا، ان کے لیے ماسک اور دستانوں کا استعمال لازمی ہو گا

سیاحوں کی گاڑیوں کو سیاحتی مقامات پر پہنچنے اور وہاں سے واپسی پر ڈس انفیکٹ کیا جائے گا۔ سیاحوں کو گاڑی کے اندر بھی سماجی فاصلوں کی پاسداری کرنا ہو گی

حفاظتی اصولوں پر مبنی کتابچے ہر سیٹ پر لگائے جائیں گے جبکہ گاڑی میں سپرے اور سینٹائزر ہونا لازمی ہیں

اگر سیاح پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر کریں گے یا ان کو ٹور آپریٹر وغیرہ ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کریں گے تو ڈرائیور پر ماسک اور دستانوں کا استعمال لازمی ہو گا

ہوٹل یا گیسٹ ہاؤس انتظامیہ یہ یقینی بنائے گا کہ وہ سیاحوں کی صحت کے بارے میں مقامی حکام کو مطلع کرتے رہیں

ہوٹل، گیسٹ ہاؤسز میں داخلے سے پہلے درجہ حرارت چیک کیا جائے گا اور سیاحوں کے سامان کو ڈس انفیکیٹ کیا جائے گا جبکہ داخلی راستے پر واک تھرو گیٹ نصب ہوں گے

کسی کو بھی بغیر ماسک کے ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی

ہوٹل، گیسٹ ہاؤس میں دستیاب کمروں کی صرف نصف تعداد ہی استعمال کی جا سکے گی تاکہ سماجی فاصلے کا خیال رکھا جا سکے

ایک فرد کے کمرے میں دو کو کسی صورت میں رہائش اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ کمرے صبح شام ڈس انفیکٹ کیے جائیں گے

ڈائنگ ہال میں بھی میز اور کرسیاں سماجی رابطوں کے اصول کی پاسداری کرتے ہوئے لگائی جائیں گی

کھانے پینے کے لیے ڈسپوزیبل برتنوں کو ترجیح دی جائے

لفٹ میں دو لوگوں سے زیادہ افراد کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہو گی

سیڑھیاں اترتے چڑھتے اس بات کا یقینی بنایا جائے گا کہ لوگ جمع نہ ہوں اور ایک ایک کر کے گزریں

ہوٹل اور گیسٹ ہاؤسز کے تمام سٹاف کا مکمل طبی حفاظتی اقدامات کیے جائیں گے

مقامی انتظامیہ اس بات کو یقینی بنائے گئی کہ سیاحتی مقامات کے دورے کے موقع پر ایک حد سے زیادہ سیاح داخل نہ ہوں اور سماجی فاصلے ہر صورت میں برقرار رہیں

بحیثیت محب وطن پاکستانی ہم سب کا فرض ہے کہ ہم حکومتی تجاویز پر عمل پیرا ہوں تا کہ اس وبائی بیماری کے پھیلائو  کو روکا جا سکے۔

مری پاکستان کے شمال میں ایک مشہور اور خوبصورت سیاحتی تفریحی مقام ہے۔ جو کہ وفاقی دار الحکومت اسلام آباد سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ مری کا سفر سر سبز پہاڑوں، گھنے جنگلات اور دوڑتے رقص کرتے بادلوں کے حسین نظاروں سے بھرپور ہے۔ گرمیوں میں سر سبز اور سردیوں میں سفید رہنے والے مری کے پہاڑ سیاحوں کے لیے کشش کاباعث ہیں۔

اس سات ہزار فُٹ بلند سیاحتی مقام کی بنیاد1851میں برطانوی دور حکومت میں رکھی گئی تھی۔ اور یہ برطانوی حکومت کا گرمائی صدر مقام بھی رہا۔ ایک عظیم الشان چرچ شہرکے مرکز کی نشان دہی کرتا ہے۔ یہ 1857 میں تعمیر ہوا۔ چرچ کے ساتھ سے شہر کی مرکزی سڑک گزرتی ہے جسے ’’مال روڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں شہر کے مشہور تجارتی مراکز اور کثیر تعداد میں ہوٹل قائم ہیں۔ مال روڈ سے نیچے مری کے رہائشی علاقے اور بازار قائم ہیں۔کپڑے، کھیلونے خشک میوہ جات اور ڈیکوریشن پیس کی دکانیں پائی جاتی ہیں۔ 1947ء تک غیر یورپی افراد کا مال روڈ پر آنا ممنوع تھا۔


راولپنڈی سے ایک گھنٹے (54 کلومیٹر) کی مسافت پر  پنجاب کا یہ  سب سے زیادہ قابل رسائی پہاڑی سیاحتی مقام ہے۔ یہاں سے آپ موسمِ گرما میں کشمیر کی برف پوش پہاڑیوں کا نظارہ کر سکتے ہیں جبکہ بارشوں کے دنوں میں (جولائی سے اگست) بادلوں کے کھیل تماشے اور سورج کے غروب ہونے کا منظر تو روز ہی نظر آتا ہے۔ اس پہاڑی تفریح گاہ کے کچھ حصے خصوصاً کشمیر پوائنٹ جنگلات سے بھرپور اور انتہائی خوبصورت ہیں۔ زندگی کے ہر پہلوسے لوگ خصوصاً فیملیاں، طالبعلم اور سیاح سینکڑوں میل دور جنوب میں لاہور، ملتان،فیصل آباد اور کراچی سے یہاں گرمیاں اور سردیاں گزارنے آتے ہیں۔

مری  ایک پرشش  مقام ہے۔ یہاں پہنچ کر آپ فطرت کو اپنے  قریب تر محسوس کرتے ہیں۔  یہاں پر پائے   جانے والے مشہور پھلوں میں سیب، ناشپاتی اور خوبانی  و غیرہ شامل ہیں۔ آپ کو یہاں ہر جگہ پہاڑی لوگوں کی ثقافت دیکھنے کو ملے گی۔اگر آپ  نے ابھی تک مری کے دلفریب نظاروں کا نظارہ نہیں کیا تو ابھی سے کمر کس لیجئے۔ یقین کیجئے یہ دن مری میں گزار کر آپ اپنی طبیعت ہشاش بشاش کر سکتے ہیں۔ اور زندگی کی خوبصورتیوں سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔


 

 

 

Comments

Popular posts from this blog

محرم الحرام اور ہماری ذمہ داریاں